پاکستان میں ریپ اور سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست ملزمان ’ٹھوس شواہد اور اعترافِ جرم‘ کے باوجود پراسرار حالات میں مارے کیوں جاتے ہیں؟
پاکستان میں ریپ اور سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست ملزمان ’ٹھوس شواہد اور اعترافِ جرم‘ کے باوجود پراسرار حالات میں مارے کیوں جاتے ہیں؟
- شہزاد ملک
- عہدہ,بی بی سی اردو، اسلام آباد
’ملزم دُھند اور تاریکی کا فائدہ اٹھا کر کانسٹیبل کو دھکا دے کر گاڑی سے چھلانگ مار کر اُترا اور ہتھکڑی سمیت فرار ہو گیا۔ پولیس نے ملزم کا پیچھا کیا اور اسی دوران ایک مقام پر دو سے تین افراد کے شور، گالی گلوچ اور پھر فائرنگ کی آوازیں آئیں۔‘
’پولیس اہلکاروں کے للکارنے پر نامعلوم افراد فرار ہو گئے، تاہم اس مقام سے ایک شخص شدید زخمی حالت میں ملا جس کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکا۔ مرنے والے کی شناخت زہرہ کیس کے ملزم کی حیثیت سے ہوئی ہے۔‘
یہ سرائے عالمگیر میں چار سالہ بچی زہرہ کے ریپ اور قتل میں ملوث ملزم کی ہلاکت کے حوالے سے درج پولیس ایف آئی آر کا متن ہے۔ زہرہ کیس کا ملزم 16 جنوری 2025 کی رات پراسرار حالات میں ہلاک ہو گیا تھا۔
تاہم اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں پولیس کی حراست سے ایک ایسا ملزم بظاہر فرار ہونے میں کامیاب ہوتا ہے اور بعدازاں مارا جاتا ہے جس کے بارے میں پولیس کو ’سائنسی بنیادوں پر کی گئی تفتیش کے بعد ناقابل تردید شواہد‘ مل چکے ہوتے ہیں۔
ایسے واقعات کے بعد پولیس کی جانب سے عموماً یہ روایتی بیان جاری کیا جاتا ہے جس میں دعویٰ ہوتا ہے کہ ملزم کو برآمدگی کے لیے لے جایا جا رہا تھا جب ’ملزمان کے مسلح ساتھیوں نے پولیس پارٹی پر حملہ کر دیا اور اس دوران ہونے والی فائرنگ سے ملزم ہلاک ہو گیا۔‘
عموماً اس طرح کے واقعات میں ایف آئی آر میں مقام، تاریخ اور ملزم کا نام بدلنے کا علاوہ باقی عبارت لگ بھگ ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔
اسلام آباد میں ایف نائن پارک میں خواتین کے ساتھ مبینہ ریپ کے ملزمان ہوں یا پھر اسلام آباد کے بینکوں میں ڈکیتی کرنے والا ملزم، یہ صرف چند ایسے حالیہ واقعات ہیں جن میں پولیس کے مطابق ان کے پاس ’ناقابل تردید شواہد‘ بھی موجود ہوتے ہیں تاہم پراسرار حالات میں زیر حراست ملزم ہلاک ہو جاتا ہے۔
What's Your Reaction?